October 20 2025

قادیانی کفر عالم اسلام کے فتاویٰ جات کی روشنی میں

فتویٰ برائے قادیانی کفر

الحمد للہ، تمام علمائے کرام اور مسلم اُمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قادیانی جماعت، جسے مرزا غلام احمد قادیانی نے قائم کیا، دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ قادیانی عقائد اسلامی تعلیمات اور عقیدۂ ختمِ نبوت کے خلاف ہیں۔ قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فتویٰ تمام مسالک کے جید علمائے کرام کی متفقہ رائے پر مبنی ہے۔

قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی شرعی بنیاد

قادیانیوں کے کفر کا فتویٰ ان کے بنیادی عقائد کی بنا پر دیا گیا ہے، جن میں سرِفہرست یہ ہیں:

١۔ عقیدۂ ختمِ نبوت کا انکار

اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ قادیانی اس عقیدے کی صریح مخالفت کرتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں، جو سراسر کفر ہے۔

٢۔ مرزا غلام احمد کے جھوٹے دعوے

مرزا غلام احمد نے مجدد، مہدی، مسیح موعود اور نبی ہونے کے دعوے کیے، جو اسلام کی بنیادی تعلیمات اور عقائد کے خلاف ہیں۔

٣۔ قرآن و حدیث کی توہین

قادیانی جماعت کے نظریات میں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی کھلی مخالفت پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا۔

پاکستانی آئین اور فتویٰ

١٩٧٤ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ یہ فیصلہ علمائے کرام کے فتاویٰ اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا گیا۔ آئین پاکستان کی رُو سے قادیانی خود کو مسلمان کہلانے یا اسلامی شعائر استعمال کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔

علمائے کرام کا متفقہ فیصلہ

دنیا بھر کے مسلم علماء نے قادیانیوں کو متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دیا ہے۔ اسلامی کانفرنسز، علمی و فقہی اجتماعات، اور فتویٰ مجالس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ قادیانی عقائد اسلام کے بنیادی عقائد کی صریح مخالفت کرتے ہیں اور ان کا دائرۂ اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

عقیدۂ ختمِ نبوت کا تحفظ

مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے عقیدۂ ختمِ نبوت کی حفاظت کریں اور قادیانی فتنے سے خود کو اور اپنی نسلوں کو بچائیں۔ علماء کا یہ فتویٰ ایک رہنمائی ہے تاکہ مسلمان اس گمراہ فرقے کے عقائد سے آگاہ رہیں اور اسلامی تعلیمات پر ثابت قدم رہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں عقیدۂ ختمِ نبوت پر ایمان کی دولت کے ساتھ قائم و دائم رکھے۔ آمین۔

فتویٰ ختم نبوت کے متعلق کتابیں

فتویٰ نمبر 1

فتویٰ نمبر 2

فتویٰ نمبر 3

فتویٰ نمبر 4